سیرت کے معنی اور اس کی اقسام
سیرت کے معنی اور اس کی اقسام
شناخت کا ایک سرچشمہ ہے جس کے ذریعے ایک مسلمان کو اپنی فکر اور نظریے کی اصلاح اور تکمیل کرنی چاہیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہے۔
سورۃ الحزاب آیت 21
تم میں اس کے لئے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے جو بھی اللہ اور آخرت سے امیدوار ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے
ہم مسلمانوں پر اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اور دوسرے ادیان کے پیروکاروں کے مقابلہ مسلمانوں کے لیے ایک افتخار یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت سارا کلام نہیں ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی کلام ہے یعنی متواتر اور مسلم ہے آج ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے جبکہ کوئی اور دین اس بات کا دعوی نہیں کر سکتا یعنی یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں جملہ وہ جملہ ہے جو مثلا حضرت موسی علیہ السلام یا حضرت عیسی علیہ السلام یا کسی اور پیغمبر کی زبان سے سنا گیا ہے بہت موجود ہیں ہیں وہ اتنے یقینی عورتیں نہیں ہیں جبکہ ہمارے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت متواتر جملے موجود ہیں۔
دوسری طرف ہمارے پیغمبر کی تاریخ انتہائی واضح اور مستند تاریخ ہے اس اعتبار سے بھی دنیا کے دوسرے رہنماؤں کا ہمارے رہنماؤں کے ساتھ جوڑ نہیں پتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی بریک اور جزاۓ باتیں بھی کرتی اور مسلم صورت میں آج ہمارے دسترس میں ہیں کسی اور کے بارے میں ایسا نہیں ہے سال مہینے ہڈی کے ولادت کا دن اور انتہائی ہے کہ ولادت کا ساتواں دن شیرخوارگی کا دار و مدار جو اپنے صحرا میں گزارا بلوغت سے پہلے کا زمانہ اب راست ان سے باہر آپ کی جانے والے سفر سے پہلے مجموعی طور پر جو پیشے اپنے اپنے تھے آپ کی شادی کس عمر میں ہوئی کتنے بچوں کی ولادت ہوئی اور ان میں سے پہلے ہی اس دنیا سے چلے گئے کس عمر میں ان بچوں کی وفات ہوئی اور دوسری باتیں ۔ یہاں تک کہ آپ کی رسالت اور بعثت کے دور کے بارے میں معلومات زیادہ بری کیوں کے ساتھ موجود ہیں کیونکہ یہ ایک عظیم واقعہ تھا سب سے پہلے ہم ان پر ایمان لایا دوسرا اور تیسرا فاقہ تھا فلاں شخص کے ساتھ ایمان لایا ان کے اور دوسرے لوگوں کے درمیان کیا باتیں ھوئیں انہوں نے کیا کیا کام کیے۔
جب کہ حضرت عیسی علیہ السلام جن کا زمانہ بڑے سیاستدان شریعت ہم سے سب سے زیادہ نزدیک زمانہ ہے اگر قرآن نے ان کی تائید نہ کی ہوتی جس کی وجہ سے مسلمان عالم حکم قرآن کی رو سے انہیں ایک سچا خدا کا نبی مانتے ہیں تو دنیا میں انہیں ثابت کرنا اور ان کی تائید کرنا ناممکن ہو جاتا ہے خود عیسائی بھی تاریخی حوالے سے اس پر انگلی نہیں رکھتے جس کی بنیاد پر یہ مسئلہ نہیں ہے کہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی تاریخ ولادت کو آج انیس سو پچھتر سال گزر چکے ہیں یہ کوئی حقیقی بات نہیں ہے ایسی بات ہے جسے کر لیا گیا ہے اگر ہم کہتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کو 395 قمری سال اور 394 رقم سال گزر چکے ہیں تو اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں لیکن یہ بات کہ حضرت عیسی مسیح کی ولادت کو انیس سو پچھتر سال گزر چکے ہیں یہ ایک ایسی بات ہے جسے مان لیا کیا ہے تاریخ سے اس کی ہرگز تائید نہیں ہوتی ممکن ہے ان کی ولادت اس تاریخ سے 23 سال قبل ہوئی ہو یا دو تین سال بعد ہوئی ہو اور بعض جغرافیائی نہیں نہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں تو یہ تک کہتے ہیں کہ یہ مسیح نامی کوئی شخص دنیا میں آیا ابھی تھا ایک افسانوی اور جعلی شخصیت ہے وہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کے وجود کے بارے میں بھی شک کرتے ہیں البتہ ہمارے اعتبار سے یہ ایک بیان ہے قرآن کریم نے حضرت عیسی کے وجود کی تائید کی ہے اور ہم کیونکہ قرآن پر اعتقاد رکھتے ہیں لہذا اس بارے میں ہمیں کوئی شک نہیں ہے اسی طرح یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواری کون لوگ تھے انجیل کس سن میں اور حضرت عیسی علیہ السلام کے کتنے سال بعد کتابی شکل میں سامنے آئی کتنی انجیلی تھی یہ سب باتیں مشکوک ہیں لیکن ہم مسلمانوں کے لیے یہ سرچشمہ خواہ وہ گفتار نبی کا سرچشمہ ہو کا کردار نبی کا سر چشمہ ہو وہ انتہائی یقینی اور بڑی حد تک قطعی صورت میں موجود ہے یہ وہ بات تھی جو ہم اس گفتگو کے مقدمے کے طورپربیان کرنا چاہتے تھے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مقدس کی جس سے ہم استفادے کے ذمہ دار قرار دیے گئے ہیں وہ ان کی گفتار میں بھی ہے اور ان کی رفتار میں بھی ان کے کال میں بھی ہے اور ان کے خیال میں بھی یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام بھی ہمارے لئے رہنما اور سنت ہے اور ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے ۔
تبصرے