فلسفہ حج ہمیں کیا سبق دیتا ہے اور پیغمبر اسلام اور حجۃ الوداع
فلسفہ حج ہمیں کیا سبق دیتا ہے
یہ فلسفہ حج کی معرفت ہی تو ہے جو ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم حقیقت عبودیت سے عاری حج ظاہری یا مسخ شدہ اور زمانہ جاہلیت کے حج کے مقابلے میں یہ جان سکیں کہ کون سا حج حقیقی اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حج کی مانند ہے نیز یہی فلسفہ ہے جس نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ یہ جج صرف اور صرف حج اسلام سے تعبیر ہو سکتا ہے جو اس عظیم روح اور گراں بہا آثار کا حامل ہو جس سے حج اسلام کے معین شدہ دو مقاصد کا کا تعلق ہی نہیں بن کے آنا علی اور ارفع نتائج تک امت مسلمہ اور افراد امت کی رسائی بھی یقینی ہوں جو حقیقی اسلامی حج کا خلاصہ ہیں۔
موجودہ دور میں اگرچہ ظاہری طور پر ہر سال اس فریضہ حج کو زیادہ سے زیادہ پرشکوہ انداز میں بجالانے کی بڑی زور و شور سے نمائش کی جاتی ہے تاہم اصل حقیقت تو یہی ہے کہ اس طرح کا حج اسلام کے حقیقی فلسفہ اور پاکیزہ روح سے عاری ہونے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے مثبت اور تعمیری نتائج سے بھی تہی دامن ہوتا ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ایسا آج ہمیں اسلامی اہداف اور اس راہ پر گامزن کرنے کا موجب بن رہا ہے عالمی سامراجیت سے وابستہگی اور اس اسلام حقیقی کے خدوخال کو مسخ کرنے کا موجد ہے جو مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف اعلان جہاد کا درس دینے والا ہے
پیغمبر اسلام اور حجۃ الوداع
ابن عباس کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خلاف کعبہ پکڑ کر فرمایا تھا کہ میری امت میں سے دولت مند طبقہ تفریح کے لیے جب کہ متوسط طبقہ تجارت کی غرض سے اور غریب لوگ خودنمائی اور شہرت کے حصول کی خاطر حج کیا کریں گے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تشویش اس بنا پر ظاہر فرمائی تھی کہ اس طرح کا حج اپنی اصل روح اور حقیقت کو دینے کے بعد تعمیری نتائج کے بجائے پست ترین مقاصد کی تکمیل ان کا ذریعہ بن جائے گا
حج کے معنوی اور روحانی پہلو
قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے اور بیوی کو مکہ کیسا ہے راہ میں لانے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کی نیت بھی آواز کے جواب میں خانہ کعبہ کی تعمیر اور اس کے بعد مسلمانوں کو حج کرنے کے لیے پکارنے کے علاوہ جس طرح سے حج کے اعمال کا تذکرہ کیا گیا ہے اگر ہم ان سب کا تحقیقی مطالعہ کریں تو ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ اور حج کے مناسک قوام آل اس امر کی طرف متوجہ کرتے نظر آئیں گے کہ یہ وہ مناسب وہ اعمال ہیں جو نہ صرف یہ کہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں بلکہ ان سب کا کا اہداف و مقصد بھی ایک ہی ہے اور یہ ہدف واحد عارفین کی اسلامی وہ روحانی راستہ ہے جس پر گامزن ہونے کے بعد انسان محبت عشق اور اخلاص کے مراحل کو طے کرتا ہوا اس مقام تک رسائی حاصل کرتا ہے جہاں وہ اپنے آپ کو خودی کے جال سے نکال کر خالق دو جہاں کے ہستی کے سمندر میں غرق کر دیتا ہے اس لیے کہ انسان سے خدا تک پہنچنے کے اس راستے میں سب سے پہلی شرط یہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس معاویہ دنیا خودی کے قید خانے سے آزاد کر کے کے ان اللہ کی صفت میں شامل کرے حج کے بے شمار پہلو ہیں اور ہر پہلو کی رضاعت کے لیے ایک دفتر درکار ہے ثقافتی رابطہ کی نہج کا تعمیر کردار حج کا سیاسی پہلو حج عوام کے تحرک کا سبب حج کا ایک تاریخی پہلو حج کا آبادی پہلو حج کا روحانی و عرفانی پہلو یہ وہ موضوعات ہیں کہ ہر ایک موضوع پر ایک علیحدہ کتاب تحریر کی جاسکتی ہے
حج اور قرآن کریم
حج کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن حکیم میں ایک مستقل سورہ الحج کے نام سے موجود ہے اور مختلف آیات میں حج کا ذکر کیا گیا ہے
سورۃ آل عمران پارہ نمبر 4 آیت نمبر 97 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس کے حکم سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ خداوندعالم تمام جہانوں سے بے نیاز ہے
حج اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد گرامی میں مسلسل حج کے بارے میں تاکید ہے چونکہ ہمارے دین اسلام کا سرچشمہ سرکار دو عالم کی ذات اقدس آئے اور ان کا حکم اور اس واہ یہ ہمارے دین کی بنیاد ہے لہذا ہم حج کے بارے میں آپ کے احکامات و ارشادات کی اوسط سے مسلمانوں پر حج کی اہمیت کی وجوہات کی سعادت حاصل کرتے ہیں
ارشاد ہے
معلوم ہونا چاہیے کہ حج سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے سوائے نماز کے مگر حج کا ایک جز نماز بھی ہے اور نماز کا جز حج نہیں ہے
ایک اور جگہ ارشاد ہے
ہر نعمت کے بارے میں اس کے مالک سے قیامت کے دن بعض پرس کی جائے گی کہ کہاں خرچ کی سوائے اس چیز کے جس سے جہاد یا حج میں خرچ کیا ہو
ایک اور جگہ گا سرکار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج بیت اللہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے حج کے تمام اہم ارکان کی تفصیلی اور بندگان خدا کو اس سے پہنچنے والے فوائد کا ذکر فرمایا ہے
حج بیت اللہ کے راستے کی طرف جب تم متوجہ ہوجاؤ اور سواری پر بیٹھ جاؤ اور سواری تمہیں لے کر چل پڑے تو تم بھی وہ اٹھائے اور رکھے گی ہر قدم اللہ تعالی تمہارے لیے نیکی میں شمار کرے گا اور تمہاری دس کوتاہیوں کو معاف کردے گا
پھر جب بیت اللہ کا طواف یعنی سات چکر مکمل کرو گے تو پروردگار عالم کی بارگاہ میں تمہارا ایک آیت ہوگیا اور تمہارا نام ذکر کرنے والوں میں تحریر کر دیا گیا جس کے بعد پروردگار عالم کو یہ پسند نہیں ہوگا کہ اس کے بعد تمہیں عذاب میں مبتلا کرے پھر جب مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو رکعت نماز پڑھو گے تو خداوند عالم اس کے بدلے میں ہمارے نامہ اعمال میں ایک ہزار رکعت تحریر کر دے گا
اور جب صفا و مروہ کے درمیان سعی کرو گے یعنی سات چکر لگاؤ گے تو تمہارے لئے پروردگار عالم کے نزدیک پیدل حج کرنے والے کے برابر اجر وا ثواب لکھا جائے گا اور خدا کی راہ میں ستر مومن غلاموں کی آزادی کی جائے گی
اور جب تم عرفات کے میدان میں غروب آفتاب تک وقف کرو گے تو تمہارے گناہ صحرا کی ریت یا سمندر کی جھاگ کے برابر بھی ہوں گے تو خداوندعالم تمہارے سارے گناہ معاف کر دے گا اور پھر جب مزدلفہ میں اور میں وقف کرو گے اور رمی جمارات کرو گے تو تم خدا کی راہ میں قربانی دو گے یا اور ذبح کرو گے تو اس کے جسم سے جتنا خون بھرے گا اس کے ہر قطرے کے وضبط دا وند کریم تمہارے نامہ اعمال میں تمہاری باقی ماندہ میں نیکی لکھتا رہے گا
اور پھر جب خانہ کعبہ کا طواف زیارات سات چکر کرو گے اور مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو رکعت نماز پڑھو گے تو ایک معزز فرشتہ تمہارے شانوں پر ہاتھ مار کر کہے گا کہ ماضی میں جو کچھ سرد ہوتا رہا ہے وہ سب معاف کر دیا گیا ہے اب اس سر نو زندگی کا آغاز کرو کرو اور اس بات کی کوشش کرو کہ اب ایسی ان زندگی گزاروں گا جو گناہ نافرمانی اور ہر قسم کی کوتاہیوں سے پاک ہو کیونکہ حج سے قبل جو گناہ تم سے سرزد ہوئے تھے خداوند کریم نے وہ سب تو معاف کر دیے اب یہ تم پر منحصر ہے کہ اپنی آئندہ زندگی کیسی بناتے ہو اور اس کا فیصلہ ایک سو بیس دن کے اندر کر لیا
تبصرے